اپنی ضد پر قائم
میری بیٹی کو معلوم ہے کہ مجھے کیسے لوگ پسند ہیں اور میں کس طرح کے لڑکے کو اپنا داماد بنانا چاہتا ہوں لیکن پھر بھی اس نے معمولی سے خاندان کے ایک لڑکے کو پسند کرلیا ہے جس کے پاس اچھی ملازمت بھی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں خود جو کام کرتی ہوں اس طرح مل کر گزارہ ہوجائے گا۔ وہ جانتی ہے کہ بینک میں اسے جاب میری وجہ سے ملی ہے مگر پھر بھی وہ اپنی ضد پرقائم ہے۔ اس کی عمر اٹھائیس سال ہی تو ہوئی ہے‘ ابھی سے وہ اپنی شادی کیلئے فکر مند ہوگئی ہے حالانکہ ابھی تو وقت ہے۔ اچھا رشتہ مل سکتا ہے۔ دراصل میری بیوی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سے تو وہ سمجھنے لگی کہ ماں نہیں ہے‘ اب باپ کو بھی فکر نہ ہوگی۔ میں شدید ذہنی کرب کا شکار ہوں کہ آخر ہوگا کیا؟ (رفیق علی‘ لاہور)
مشورہ:سب سے پہلے تو اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ آپ کی بیٹی کی عمر شادی کیلئے بہت مناسب ہے‘ اب اور کسی رشتے کا انتظار کرکے وقت ضائع نہ کریں۔ لڑکے کے پاس آپ کے معیار کے مطابق ملازمت نہیں لیکن وہ خود اچھا اور شریف ہے تو کوشش کے بعد اسے اچھی ملازمت مل سکتی ہے۔ اس طرح آپ کی شکایت دور ہوجانے والی ہے۔ آج کل بہت سے خاندان مل جل کر گھر چلارہے ہیں۔ بیٹی کو اپنی بات ماننے پر مجبور نہ کریں بلکہ اسے اچھائی اور برائی دونوں سمجھا دیں۔ والدین کاکام تو اولاد کو سمجھانا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو وہ اپنے لیے بہتر سمجھیں کیونکہ بچوں کو سمجھانے کی بھی عمر ہوتی ہے۔ 18 سال سے بڑے بچوں کو سمجھانا دس سال کے بچوں کے مقابلے میں کچھ مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ کی بیٹی تو بہت سمجھدار اور اپنا اچھا برا سمجھنے والی معلوم ہوتی ہے۔
کہیں پھر دکھ نہ ہو
میری عمر 45 سال کے قریب ہے۔ چھوٹے دونوں بھائیوں کی شادی ہوگئی ہے۔ ایک بہن تھی وہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی۔ اب میں ہوں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھائی بھی الگ الگ گھروں میں رہ رہے ہیں۔ گھر پر میں اور والدہ ہیں۔ والدہ بہت اصرار کرتی ہیں کہ میں شادی کرلوں مگر مجھے خیال ہوتا ہے کہ کہیں میری بیوی بھی الگ گھر میں رہنے کی فرمائش نہ کردے اور میرے انکار پر آپس میں علیحدگی نہ ہوجائے‘ شادی ناکام ہوگی تو اور بھی دکھ ہوگا۔ (عدنان عمر‘ ساہیوال)
مشورہ:ذرا غور کریں کہ آپ کے ملنے والے دوست احباب میں کتنی شادیاں کامیاب ہوئی ہیں اور کتنی ناکام ہوئی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو شادی کے ناکام ہونے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں‘ یہاں تو ہر ممکن حد تک شادی نبھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ کے بھائی والدہ سے الگ ہوئے تو ان کی اپنی مرضی بھی شامل ہوگی۔ صرف بیوی کے کہنے پر ایسا نہیں ہوگا۔ آپ اگر والدہ سے علیحدہ ہونا نہیں چاہیں گے تو کوئی عورت آپ کو الگ نہ کرسکے گی۔ ماں کا مقام اپنی جگہ بہت اہم ہے اور بیوی کے حقوق اپنی جگہ ضروری ہیں۔ آپ شادی کرلیں ‘ ماں اور بیوی دونوں کا خیال رکھیے گا۔ بیوی کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ آپ اپنی ماں کو چھوڑ کر الگ نہیں رہیں گے تو وہ بھی ساتھ ہی رہے گی اچھی لڑکیاں شوہر کی ماں کو اپنی ماں ہی کا درجہ دیتی ہیں۔
انتظار کرسکتی ہوں
میں نویں کلاس میں پڑھتی ہوں۔ مجھے میٹرک کلاس کا ایک لڑکا اچھا لگتا تھا۔ پتہ نہیں کیسے اسے میری پسند کا پتہ چل گیا اور اس نے اپنے دوست سے ذکر کیا۔ اس کا دوست ہمارے برابر والے گھر میں رہتا ہے۔ اس نے سب کچھ مجھے بتادیا۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی بہت جلد شادی کردی جاتی ہے۔ ادھرمیرے خاندان سے ہی رشتے آنے شروع ہوگئے مگر وہ لڑکا ابھی اپنا رشتہ نہیں بھیج سکتا ہے‘ اسے تو ابھی پڑھنا ہے اور میں اس کے انتظار میں بیٹھ سکتی ہوں جب تک وہ جاب نہیں کرلیتا۔ میں بھی شادی کی ہامی نہیں بھروں گی۔ میں نے یونہی امی سے اس کا ذکر کیا تو وہ ناراض ہوگئیں اور اسکول سے میرا نام کٹوا دیا۔ اب کہتی ہیں کہ پرائیویٹ امتحان دے لینا۔ (آمنہ....عمرکوٹ)
مشورہ:اچھا تو کچھ بھی لگ سکتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی کے فیصلے کرلیے جائیں۔ آپ کم عمر لڑکی ہیں۔ آپ کا اچھا یا برا والدین بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے خواہ مخواہ میٹرک کلاس کے لڑکے کے بارے میں پسندیدگی ظاہر کردی‘ اس طرح والدہ نے اسکول چھڑوا دیا بہرحال! اب آپ پرائیویٹ امتحان کی ہی تیاری کریں اور لڑکے کا خیال ذہن سے نکال دیں۔ ابھی اسے جاب کرنے میں بہت وقت لگے گا جبکہ آپ کے خاندان میں جلد شادی ہوجاتی ہے اگر آپ کی عمر بڑھ گئی تو خاندان سے بھی رشتہ نہ آئے گا اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ پانچ یا دس سالوں میں لڑکے کی بھی پسند بدل جائے اور وہ آپ کو بھول بیٹھے۔ اس عمر کے فیصلے اتنے پکے نہیں ہوتے کہ ان پر مکمل اعتبار کرکے اہل خانہ کو ناراض کردیا جائے۔
دل گھبرانے لگتا ہے
میں ایف ایس سی انجینئرنگ کا طالب علم ہوں۔ پریشانی یہ ہے کہ جب بھی پڑھنے بیٹھتا ہوں دل گھبرانے لگتا ہے جبکہ اخبار اور رسالے پڑھتا ہوں تو گھنٹوںپتہ نہیں چلتا ہے۔ صرف درسی کتابوں کے ساتھ مسئلہ ہے۔ گھر والے نہ جانے مجھے کتنا ذہین سمجھتے ہیں۔ میٹرک میں ”بی“ گریڈ آگیا ہے باقی میرے ساتھ جو خاندان اور محلے کے لڑکے تھے وہ کچھ فیل ہوئے اور کچھ سی اور ڈی گریڈ میں پاس ہوئے مگر اب لگتا ہے کہ میرا گریڈ بھی اچھا نہیں آئے گا۔ آج کل خالہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔ گھر میں بہت رونق ہے۔ امی بار بار مجھ سے پڑھنے کیلئے کہتی ہیں‘ میں ان کے کہنے سے پڑھنے تو لگتا ہوں پھر خیالات ادھر ادھر جانے لگتے ہیں۔ (دانش علیم‘ میاں چنوں)
مشورہ:غیرنصابی مواد پڑھنے میں اس لیے دل لگتا ہے کہ وہ دلچسپ ہوتا ہے۔ اگر آپ درسی کتابوں کو بھی دلچسپی سے پڑھیں تو ضرور دل لگے گا یہ گھبراہٹ جس کا آپ نے ذکر کیا عدم دلچسپی کے سبب ہے۔ ادھر گھر میں بھی مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں آپ کو اپنے لیے کوئی پرسکون گوشہ تلاش کرنا ہوگا۔ یہ وقت بے حد اہم ہے اس کی قدر کریں اور اپنی تعلیم کے مقصد کو سمجھتے ہوئے یکسوئی اور محنت سے کتابوں کامطالعہ کریں۔ پہلے اگر بی گریڈ آیا تھا تو اب اے گریڈ لانے کی کوشش کیجئے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 788
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں